قرآن میں وارد اللہ کے عذاب کی اقسام اور ان کا ٹارگٹ

قرآن میں وارد اللہ کے عذاب کی موٹی موٹی اقسام اور ان کا ٹارگٹ
آپ ان سے کہئے کہ: اللہ ہی تمہںم اس مصبتہ سے اور ہر سختی سے نجات دیتا [٧١] ہے، پھر بھی تم اس کے شریک ٹھہراتے ہو

آپ ان سے کہئے:کہ اللہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ تم پر تمہارے اوپر سے کوئی عذاب نازل کرے یا تمہارے پاؤں کے نچےا سے تم پر کوئی عذاب مسلط کردے یا تمہںق فرقے فرقے بنا کر ایک فرقے کو دوسرے سے لڑائی (کا مزا) چکھا [٧٢] دے۔ دیکھئے ہم کس طرح مختلف طریقوں سے آیات با ن کرتے ہںق تاکہ وہ سمجھ جائںک
سورہ الانعام آیت نمبر 64۔65

[٧٢] عذاب کی قسمںن: حرب فجار اور حرب بعاث:۔ اس آیت مںز عذاب کی تن اقسام باُن فرمائں (١) عذاب سماوی جسےئ طوفان بادو باراں، کڑک، بجلی کا گرنا، تزا آندھی، پتھروں کی بارش وغر ہ (٢) عذاب ارضی جسےم دریاؤں کا سیلاب، زلزلے اور زمنل مںں دھنس جانا (٣) فرقہ بازی۔ خواہ یہ مذہبی قسم کی ہو یا سابسی یا قبائلی ہو۔ یہ تینوں قسم کے عذاب اگلی امتوں پر آتے رہے ہں ۔ تسرنی قسم کا عذاب تو آپ کی بعثت سے پہلے بھی موجود تھا۔ مکہ مںی حرب فجار اور مدینہ مںا حرب بعاث نے خاندانوں کے خاندان تباہ کر دیئے تھے۔ سنکڑ وں گھرانے اجڑ گئے مگر یہ قبائلی جنگںا ختم ہونے مںس نہ آتی تھںم اور پہلی دو قسموں کا عذاب اس وقت آیا کرتا تھا جب کسی قوم کا اس کی سرکشی کی بنا پر مکمل طور پر استصاسل مقصود ہوتا۔ رسول اللہ نے ان سب قسم کے عذابوں سے پناہ مانگی اور دعا کی کہ مرمی امت پر ایسے عذاب نہ آئںم۔ چنانچہ پہلی دو قسم کے عذابوں کے متعلق آپ کی دعا قبول ہو گئی مگر تسرںی قسم کے متعلق قبول نہںد ہوئی یین پہلی دو قسم کا عذاب اس امت کے کلی استصاول کےلئے نہں آئے گا البتہ جزوی طور پر آ سکتا ہے۔ رہا تسرنی قسم کا عذاب تو وہ اس امت مںب موجود ہے جس نے ملت اسلامہو کی وحدت کو پارہ پارہ کر کے مسلمانوں کو ایک مقہور اور مغلوب قوم بنا رکھا ہے اور یہ بھی سرکشی اور اللہ کے احکام کی نافرمانی کا ہی نتجہا ہے۔

تصرعا و خفیتہ کے معنی جھرا او سرا یعنی بلند آواز اور پست آواز کے ہیں ۔ الغرض اس وقت صرف اللہ کو ہی پکارتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ اگر تو ہمیں اس وقت سے نجات دے گا تو ہم ہمیشہ تیرے شکر گزار رہیں گے ۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے باوجود اس عہد و پیمان کے ادھر ہم نے انہیں تنگی اور مصیبت سے چھوڑا اور ادھر یہ آزاد ہوتے ہی ہمارے ساتھ شرک کرنے لگے اور اپنے جھوٹے معبودوں کو پھر پکارنے لگے ، پھر فرماتا ہے کیا تم نہیں جانتے کہ جس اللہ نے تمہیں اس وقت آفت میں ڈالا تھا وہ اب بھی قادر ہے کہ تم پر کوئی اور عذاب اوپر سے یا نیجے سے لے آئے جیسے کہ سورۃ سبحان میں آیت (رَبُّكُمُ الَّذِيْ يُزْجِيْ لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ ۭ اِنَّهٗ كَانَ بِكُمْ رَحِـيْمًا) 17۔الاسراء:66) تک بیان فرمایا ۔ یعنی تمہارا پروردگار وہ ہے جو دریا میں تمہارے لئے کشتیاں چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل حاصل کرو اور وہ تم پر بہت ہی مہربان ہے ۔ لیکن جب تمہیں دریا میں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو جن کی تم عبادت کرتے رہتے تھے وہ سب تمہارے خیال سے نکل جاتے ہیں اور صرف اللہ ہی کی طرف لو لگ جاتی ہے ، پھر جب وہ تمہیں خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے منہ پھیر لیتے ہو فی الواقع انسان بڑا ہی نا شکرا ہے کیا تم اس سے بےخوف ہو کہ وہ تمہیں خشکی میں ہی دھنسا دے یا تم پر آندھی کا عذاب بھیج دے پھر تم کسی کو بھی اپنا کار ساز نہ پاؤ ۔ کیا تم اس بات سے بھی نڈر ہو کہ وہ تمہیں پھر دوبارہ دریا میں لے جائے اور تم پر تندو تیز ہوا بھیج دے اور تمہیں تمہارے کفر کے باعث غرق کر دے تو پھر کسی کو نہ پاؤ جو ہمارا پیچھا کر سکے ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں اوپر نیچے کے عذاب مشرکوں کیلئے ہیں

0 comments:

Post a Comment